01-May-2022 لیکھنی کی کہانی ۔ آں چست از روز میری قسط 8
آں چست
از روز میری
قسط نمبر8
"احد"۔ آواز کے ساتھ دروازے پہ دستک ہوئی۔ احد جو ڈریسنگ کے سامنے کھڑا تھا' حمزہ کی آواز پہ اس طرف آیا۔
"حمزی وہاں کیوں کھڑا ہے؟ اندر آ جا"۔ احد نے تعجب سے کہا۔
"ہاں وہ اپنی عادت کو سدھارنے کا سوچا ہے خاص کر تمھارے معاملے میں"۔ مصنوعی سنجیدگی سے بولتے حمزہ روم میں داخل ہوا۔
"آہاں' مگر ایسا کیوں؟"۔ وہ جو اسکی خصلت سے بخوبی واقف تھا' ہنستے ہوئے پوچھنے لگا۔
"تیری شادی ہونے والی ہے نا اس لیئے"۔ بیڈ پہ بیٹھتے حمزہ نے تاج کے ساتھ ٹیک لگائی۔
"شادی تو جیسے لگتا ہے آرزو ہی بن کے رہ جائے گی"۔ احد نے آہ بھری۔
"ہیں؟ لیکن کیوں یار؟"۔ حمزہ متحیر ہوتے ہی سیدھا ہوا۔
"یار مشی سیڑھیوں سے گر گئی تھی جسکی وجہ سے اسکے پاوں کی ہڈی ٹوٹ گئی ہے۔ اینڈ آئی گیس اسکے امریکہ والے ماموں کا آپریشن بھی ہے ' انکے ٹھیک ہونے میں بھی وقت درکار ہوگا۔ سو ابھی شادی پاسیبل نہیں"۔ احد نے تفصیل دی۔
"مشی کیسی ہے اب؟"۔
"ٹھیک ہے' شادی کی فکر نہیں اسکی ہے بس وہ ٹھیک ہو جائے شادی کا کیا ہے کبھی بھی ہو سکتی ہے"۔ احد نے متبسم انداز میں کہا۔
"یہ بات بھی ٹھیک ہے' یاد آیا میں تم سے ایک ضروری بات کرنے آیا تھا"۔ خیال آتے ہی اسنے کہا۔
"کونسی بات؟"۔ احد نے سوالیہ نظریں اٹھائیں۔
"یار قمیل میرے گھر آیا تھا بول رہا تھا کہ ہم فرینڈز کافی عرصے سے ملے نہیں تو ایک گیٹ ٹو گیدر رکھا ہے' اصرار کر رہا تھا کہ تجھے لازمی لے کر آوں"۔ حمزہ نے وضاحت دی۔
"قمیل کی اچانک انٹری اور گیٹ ٹو گیدر' وہ واقعی قمیل تھا؟"۔ احد کو شاک لگا تھا۔
"ہاں یار وہی تھا"۔
"قمیل اچانک بدل کیسے گیا؟ جو انسان دس روپے کے لیز پہ چیخیں مارتا تھا اچانک گیٹ ٹو گیدر کیسے ارینج کرنے لگا؟ سٹرینج"۔
کالج ٹائم میں قمیل کا رویہ یاد کرتے احد سوچ میں ڈوبا۔
"یار ہو سکتا ہے کہ سدھر گیا ہو؟ بتا چل رہا ہے نا؟"۔ حمزہ نے کنفرم کیا۔
"یار دیکھ لے مجھے تو کچھ اور ہی معاملہ لگ رہا ہے"۔ احد کو تشویش ہوئی۔
"کیا ہو گیا ہے بڈی یار ریلیکس' ویسے بھی تو اکیلا تھوڑی نا چل رہا ہے وہاں تیرے علاوہ میں اور باقی فرینڈز بھی تو ہوں گے"۔ حمزہ نے اصرار کرنے کے سے انداز میں کہا۔
"چل ٹھیک ہے' جانا کب ہے؟"۔ احد نے حامی بھری۔
"کل شام سات بجے"۔ حمزہ نے کہا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
مشائم نے بے زارگی سے فون اٹھا کر دیکھا جہاں گھڑی دوپہر کے دو بجا رہی تھی۔ کوفت میں وہ کبھی پلستر کو دیکھتی' کبھی دروازے کو۔ بیڈ تک محدود رہ کر اب وہ تذبذب کا شکار ہو رہی تھی دوسرا احد کی کال کا صبح سے انتظار کر کے وہ مزید الجھن کی گرفت میں تھی۔ تنگ آ کر اسنے بیڈ سے اٹھنے کی کاوش میں خود کو ویل چیئر تک رسائی دی جو بیڈ سے قدرے فاصلے پہ رکھی تھی۔
ویل چیئر کے اپنی جگہ سے کھسکنے کے سبب مشائم توازن کھو بیٹھی اور اسکا وجود فرش پہ آ گرا۔
"مشائم تم گر کیسے گئی؟"۔ بلا وساطت زہرہ روم میں داخل ہوتے ہی تلملاہٹ میں اس طرف آئی۔
"آپی وہ ویل چیئر کو اپنی طرف کھینچنے کی کوشش میں' میں گر گئی"۔ مشائم نے سیدھا ہوتے کہا۔
"تو تمھیں کیا ضرورت پڑی تھی؟ مجھے آواز دے لیتی' میں آ جاتی۔ اٹھو اب اور آئیندہ ایسا مت کرنا ۔۔ کسی بھی چیز کی ضرورت ہو تو مجھے بلا لینا"۔ مشائم کو سہارا دیتے زہرہ نے بمشکل بیڈ پہ بٹھایا۔
"لیکن آپی میں بور ہو جاتی ہوں یوں سارا دن کمرے میں قید رہ کر"۔
"مشی میری جان صرف کچھ دن برداشت کر لو اسکے بعد انشاءاللہ تم آزادی سے گھومو پھرو گی جیسے تم چاہو گی' جہاں تم چاہو گی"۔ مشائم کے برابر بیٹھتے زہرہ نے اسے تسلی دی۔
"اچھا آپی احد سے بات ہوئی کیا آپکی؟"۔
"نہیں میری بات تو نہیں ہوئی کیوں تمھیں کال نہیں کی کیا آج اسنے؟"۔ نفی کرتے اسنے کہا۔
"نہیں"۔ مشائم نے اترے ہوئے چہرے سے جواب دیا۔
"تم پریشان مت ہو کہیں بزی ہوگا ورنہ آج تک ایسا کبھی ہوا ہے کہ احد نے تمھیں کال نا کی ہو؟ اسکا کہاں گزارہ ہوتا ہے تمھارے بنا"۔ بولتے ہی وہ ہنس دی۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
احد اور حمزہ فکس سات بجے قمیل کے گھر پہنچ گئے تھے۔ دروازہ معمول برخلاف کھلا تھا جو دونوں کیلئے خاصی حیرت کا سبب بنا۔
دونوں یکجا گھر میں داخل ہوئے جہاں سامنے ہی ہال تھا جس میں ایک صوفہ سیٹ درمیان میں لگایا گیا تھا۔ خود کے علاوہ انہوں نے گھر میں خاموشی کا وجود پایا یہ ان کیلیئے دوسری بڑی تعجب کی بات تھی۔
"ویلکم"۔ تعاقب سے آواز ابھری جس پہ دونوں ایڑیوں کے بل مڑے' قمیل کے ہمراہ اسکے چار دوست انٹرنس پہ کھڑے تھے جو ظاہری حلیے سے غنڈے اور اوباش معلوم ہو رہے تھے۔
"تم لوگوں نے میرا انویٹیشن قبول کرکے مجھے تلافی' خوشی اور مہمان نوازی کی وجہ دی ہے"۔ قدم اٹھاتا قمیل اس طرف آیا۔ "احد سچ پوچھو تو مجھے یقین نہیں تھا کہ تم آو گے' تم آئے مجھے بے حد مسرت ہے ورنہ مجھے لگا تھا کہ ایک راکسٹار بننے کے بعد تمھارا حلقہ احباب وسیع ہو گیا ہوگا"۔
"نہیں قمیل ایسی بات نہیں' اپنی اپنی سوچ ہے' انسان چاہے افلاک کی بلندی ہی کیوں نا چوم لے اپنی بساط نہیں بھولتا"۔ احد نے آزمودہ کاری سے کہا۔
"بہت شکریہ دوست"۔ احد کو حقارت کی نظر سے دیکھتے قمیل نے بناوٹی مسکراہٹ سے کہا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
رات کے نو بجے جب وہ ساتوں گپ شپ میں مصروف تھے' حمزہ کا فون بجا۔ وہ گھڑی' وہ پل' وہ لمحہ جسکا شاید قمیل کو شدت سے انتظار تھا ۔۔۔۔ وہ اسے مل ہی گیا تھا۔
"اسلام و علیکم ۔۔۔ جی ماما؟ ۔۔۔ ماما میں اپنے دوستوں کے ساتھ ہوں"۔ کال ریسیو کرتے ہی اسنے کہا۔
"ٹھیک ہے آپ فکر نا کریں میں ابھی آتا ہوں' اوکے بائے"۔ بولتے ہی اسنے کال کاٹ دی۔
"کیا ہوا حمزہ؟ سب ٹھیک ہے؟"۔ احد جو اسکے برابر بیٹھا تھا' نے کہا۔
"یار ماما اکیلی ہیں اور پریشان بھی ۔۔۔ اس لیئے مجھے جانا ہوگا ۔۔۔۔ سوری یار قمیل"۔ حمزہ نے معذرت کرتے نشست چھوڑ دی۔ " احد چل میں تجھے بھی گھر ڈراپ کر دوں گا"۔
"ہ ہ ہاں چل ۔۔۔۔۔۔"۔
"تم چلے جاو حمزہ احد کو ہم چھوڑ دیں گے"۔ قمیل نے احد کی بات کاٹتے کہا۔
"نہیں قمیل تمھیں تکلف کرنے کی ضرورت نہیں میں حمز۔۔۔۔۔"۔
"احد یار کیا ہو گیا ہے؟ ریلیکس ہو جا۔ اسے جلدی ہے تمھیں تو نہیں ہم تمھیں چھوڑ آئیں گے"۔ قمیل نے اصرار کرتے کہا۔
احد نے مجبورا خاموشی اختیار کی۔
"ٹھیک ہے میں چلتا ہوں"۔ بولتے ہی حمزہ انٹرنس کی جانب بڑھا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
"قمیل کافی دیر ہو گئی ہے ۔۔ مجھے گھر ڈراپ کر دو"۔ دائیں کلائی پہ بندھی گھڑی پہ نظر دوڑاتے احد صوفے سے اٹھا۔
"چلو"۔ قمیل کے بعد اسکے چاروں دوست بھی اسکے اشارے پہ اپنی اپنی جگہ سے اٹھ کھڑے ہوئے۔
"ٹھیک ہے احد تم چلو میں کار کی چابی لے کر آتا ہوں"۔
"اوکے' جلدی آنا ذرا"۔ تنبیہ کرتے وہ انٹرنس کی جانب بڑھا۔
قمیل کے اشارہ کرنے پہ ایک دوست فورا سے احد کے پیچھے ہو لیا اور انٹرنس کے سائیڈ پہ رکھے ٹیبل سے گلدان اٹھاتے احد کے سر پہ جی جان سے وار کیا جس سے احد کے قدم تھمے۔
سر کی پشت پہ ہاتھ رکھے احد جونہی ہولے سے ایڑیوں کے بل گھوما اسکی آنکھوں میں سامنے موجود انسان کا عکس مبہم سا سمایا۔ اگلے ہی لمحے اسکا وجود زمین بوس ہو گیا تھا۔ قمیل کے ہمراہ اسکے بقیہ ساتھی بھی جھٹ سے احد کی جانب لپکے۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
رات کی تاریکی اپنے جوبن پہ تھی' سفید جی ایل آئی جھیل کنارے آ رکی تھی۔ قمیل کے بعد اسکے دوست کار سے نکلے۔
"ڈگی کھولو"۔ قمیل نے کار کی بیک سائیڈ پہ آتے کہا۔
چاروں ساتھیوں میں سے ایک نے ڈگی کھولی پھر دو نے مل کر احد کے بے جان پڑے وجود کو باہر نکالا۔
"کیا کرنا ہے اسکا؟"۔ ایک نے صدا بلند کی۔
"کرنا کیا ہے؟ جھیل کی نذر کر دو اسے"۔ قمیل نے عتاب میں کہا۔
بےجان وجود کے پانی میں گرتے ہی ایک زور دار آواز آئی تھی جسکے سنتے ہی قمیل کے لبوں پہ تمسخرانہ مسکراہٹ رینگی۔
اپنا کام تسلی سے سر انجام دیتے وہ تمام وہاں سے رخصت ہوئے۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
رات کی بڑھتی تاریکی کے سبب خاموشی کی شدت عروج پر تھی۔ چاند کی ہلکی ہلکی روشنی جھیل کے پانی میں تیرنے لگی تھی۔۔۔ سڑک کے پار کنارے پہ لگے درختوں کی لمبی' گھنی ڈالیاں سرشاری سے ہلکورے لے رہی تھیں۔
پانی کی پرہول آواز کے ساتھ ہی احد کا وجود بذات خود پانی کا پردہ چیڑتے سطح پہ آیا تھا۔ اسی اثنا میں اسکا وجود ہوا میں اڑتا کنارے پہ آ ٹھہرا جیسے کسی نے بانہوں کے حلقے میں لیتے پانی سے نکال کر کنارے پہ رکھا ہو۔
دل پہ ہلکے سے دباو کے بعد احد کے منہ سے اسکے وجود میں پناہ گزیں پانی باہر نکالنا شروع ہوا۔
احد کا سر ہوا میں قدرے یوں معلق تھا جیسے کسی کی گود میں پڑا ہو۔
"پانی"۔ کچھ منٹوں کی تاخیر سے اسکے لب ہولے سے ہلے۔
اس دم ایک پتہ درخت سے ٹوٹتا' پیالے کی شکل میں' ہوا میں اڑتا' جھیل کے آب سے مملو' احد کے لبوں کے قریب آ رکا۔
لبوں کی حرکت سے اسنے پانی کے دو گھونٹ حلق سے اتارے۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
حویلی کے باہر کھڑے احد دروازے کی سلاخوں کے پار حویلی کی عمارت کو دیکھ رہا تھا ساتھ ہی گزشتہ رات پیش آئے واقعے سے لے کر موجودہ صبح تک رونما ہونے والی تبدیلی کے متعلق سوچنے کی ناکام کاوش کر رہا تھا' اسکا ذہن جیسے مووف ہو چکا تھا پھر قدموں کو حرکت دیتے حویلی کے اندرونی جانب بڑھنے لگا۔
"احد بیٹا تم کہاں تھے؟ میں ساری رات سو نہیں سکی یہی سوچتی رہی نجانے تم کہاں ہو؟' کس حال میں ہو؟ تمھیں لے کر عجیب عجیب خیالات آ رہے تھے"۔ جونہی اسنے انٹرنس پار کی راضیہ بیگم جو گھبراہٹ میں ٹہل رہیں تھیں احد کو دیکھتے ہی فورا سے اس طرف آئیں۔
"ماما وہ فرینڈ کے ساتھ تھا"۔ بات کو دانستہ ٹال دیا گیا۔
"لیکن بیٹا کم از کم اطلاع ہی کر دیتے میرا تو دل بیٹھا جا رہا تھا کہ پتہ نہیں تمھارے ساتھ کیا ہوا ہے جو بات نہیں کر پا رہے"۔ راضیہ بیگم نے پنہاں کیفیت اجاگر کرتے کہا۔
"ایم سوری ماما وہ فون لینا یاد نہیں رہا' فون گھر ہی رہ گیا تھا"۔ احد نے معذرت کی۔
"یہ تمھارے کپڑے بھیگے ہوئے کیوں ہیں احد؟ کیا ہوا ہے؟"۔ چہرے کے بعد راضیہ بیگم کی نگاہ اسکے کپڑوں پہ گئی جو گزشتہ رات جھیل میں گرنے کے سبب ہنوز نم تھے۔
"ک ک کچھ نہیں ماما' ماما مجھے بھوک لگی ہے پلیز میرے لیئے ناشتہ بنا دیں"۔ بات کو گول کرتے احد فورا سے سیڑھیوں کی طرف بڑھا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
"دن کے بارہ بج رہے ہیں اور احد کی گمشدگی کو لے کر ابھی تک کسی بھی نیوز چینل پہ خبر نشر نہیں ہوئی"۔ روم میں لگے ٹی وی پہ نظر جمائے وہ چینلز چینج کر رہا تھا۔
"کہیں میری چال الٹی تو؟ نہیں نہیں ایسا نہیں ہو سکتا ۔۔۔ کیا کروں؟؟۔۔۔ حمزہ' حمزہ کو کال کرتا ہوں"۔ بولتے ہی اسنے سامنے ٹیبل پہ رکھا فون اٹھا کر حمزہ کا نمبر ڈائل کیا جو دوسری کال پہ ریسیو ہو گیا تھا۔
"ہاں حمزہ یار کیسا ہے؟ رات کو گھر صحیح سلامت پہنچ تو گئے تھے نا؟ کوئی پریشانی تو نہیں ہوئی راستے میں؟"۔ قمیل نے پس و پیش بات کا آغاز کیا۔
"ہاں پہنچ گیا تھا"۔ حمزہ نے مختصرا کہا۔
"اور احد؟"۔ قمیل نے ہچکچاتے کہا۔
"کیا مطلب؟ احد کو تو تم نے گھر ڈراپ کرنا تھا نا؟"۔ دوسری جانب حیرانگی سے پوچھا گیا۔
"ہ ہ ہاں میں نے اسے بہت کہا کہ میں ڈراپ کر دیتا ہوں مگر اس نے میری ایک نا سنی اور خود چلا گیا"۔ قمیل نے فورا سے کہا۔
"کیا مطلب وہ خود چلا گیا؟ تم اچھے سے جانتے ہو احد میرے ساتھ آیا تھا اسکے پاس تو اسکی کار بھی نہیں تھی۔ تم نے اسے جانے کیوں دیا؟"۔ حمزہ عتاب میں حلق کےبل چیخا۔
"میرا یقین کر یار حمزہ میں نے اسے روکنے کی بہت کوش۔۔۔۔"۔
"ڈسگسٹنگ"۔
حمزہ کی جانب سے رابطہ منقطع کر دیا گیا تھا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
"اسلام و علیکم"۔ حویلی کی انٹرنس پار کرتے حمزہ جونہی سیڑھیوں کی طرف بڑھا دائیں جانب کچن سے نکلتی حرا کو دیکھتے ہی رک گیا۔
"و علیکم اسلام حمزہ کیسے ہو؟"۔ حرا نے خوش کن انداز میں کہا۔
"میں ٹھیک ہوں بھابی آپ سنائیں؟"۔
"الحمد اللہ میں بھی ٹھیک ہوں"۔
"بھابی احد کدھر ہے؟"۔ حمزہ نے ہچکچاتے سوال کیا۔
"احد تو اپنے روم میں ہے"۔
"تھینک گاڈ"۔ حمزہ کے دل کو قرار آیا۔
"کیوں کیا ہوا؟ تم کچھ پریشان سے لگ رہے ہو"۔ حمزہ کے چہرے کے تاثرات بھانپتے اسے تشویش ہوئی۔
"ن ن نہیں بھابی میں ٹھیک ہوں' اچھا بھابی میں احد سے مل لوں"۔ بولتے ہی وہ سیڑھیاں چڑھتا احد کے روم میں چلا گیا۔
"احد یار شکر ہے تو ٹھیک ہے ورنہ قمیل ن۔۔۔۔۔۔"۔ احد کو دیکھتے حمزہ نے آواز بلند کی۔
"نام مت لے اس ذلیل انسان کا میرے سامنے"۔ احد جو بیڈ پہ بیٹھا جھک کر جوتے پہن رہا تھا' قمیل کے نام پہ اسکا خون کھول اٹھا۔
"کیوں کیا ہوا؟ تو اتنے غصے میں کیوں ہے؟"۔ حمزہ متحیر اسکے قریب آیا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
شام ڈھل کر سنسان' گہری اور تاریک رات میں تبدیل ہو رہی تھی۔ چاند پرند غذا کا اہتمام کرنے کے بعد اپنے اپنے آشیانے کی طرف لوٹ رہے تھے۔
قمیل بھی اپنے گھر لوٹ آیا تھا ۔۔ روم میں داخل ہوتے اسنے شرٹ کے بٹنز کھولے اور بیڈ پہ ڈھے گیا' اس دم دروازہ زوردار آواز پیدا کیئے بند ہوا۔ قمیل ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا۔
"ک ک کون ہے؟؟"۔ قمیل نے ہکلاتے کہا۔
جواب میں دروازہ چلاہٹ کی آواز کیساتھ ہی ہلکا سا کھلا تھا۔
"میں نے پوچھا کون ہے یہاں؟"۔ بیڈ سے اٹھتے ہی وہ دروازے کی طرف آیا۔
"کون ہے؟؟"۔ دروازے کھولتے اسنے دائیں بائیں دیکھا مگر کوئی نظر نا آیا۔
اس دوران اسکی نگاہ روم کی دہلیز کے باہر فرش پہ پڑے گلاب پہ گئی۔
"یہ گلاب یہاں کس نے رکھا ہے؟"۔ سوچ میں پڑتے اسنے جھک کر گلاب اٹھا لیا۔